میرا ہر واقعہ حیران کردینے والا ہوتا ہے اور انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ ناممکن ہے یہ تو ہوہی نہیں سکتا مگر یہ واقعہ آپ کو سوچنے پر مجبور کردے گا کہ ناممکن ممکن ہوسکتا ہے۔
ہاں تو بچو! آج میں ایک حافظ قرآن کا ایک معجزانہ کارنامہ تحریر میں لاؤں گا جس تحریر سے شاید آپ کی ڈکشنری میں ناممکن کا لفظ ’’ممکن‘‘ میں بدل جائے اور ہر کام آپ کی نظر میں آپ کو ’’ممکن‘‘ نظر آنے لگے۔ مگر شرط ہے کہ محنت اور دیوانگی کی حد تک آپ اپنے مشن پر جت جائیں بس اسی میں کامیابی کا راز مضمر ہے۔
ہاں تو بات ہورہی تھی سیالکوٹ کے ایک حافظ قرآن کی۔ ہوا یوں کہ سیالکوٹ کے کسی گاؤں کی مسجد کے مولوی صاحب امام مسجد بھی تھے اور حافظ قرآن بھی تھے۔ لوگ مولوی صاحب سے بڑے خوش تھے ان کا احترام لوگ اپنے اوپر فرض کرکے کرتے تھے ان مولوی صاحب کا نرینہ اولاد میں ایک بیٹا بھی تھا اور باقی 3لڑکیاں۔ خدا کو جومنظور ہونا ہوتا وہی کچھ ہونا ہوتا ہے اس راز کو اللہ ہی جانتا ہے کوئی انسان نہیں جان سکتا مگر اس واقعہ کے بعد جو کے سب کیلئے افسوسناک ہوتا ہے‘ حقیقت میں وہ ویسا نہیں ہوتا۔ رمضان شریف کی آمد آمد تھی کہ مولوی صاحب اس فانی دنیا سے انتقال فرما گئے اللہ ان کو اپنی رحمتوں سے نوازتا رہے آمین ثم آمین۔ اللہ مہربان و رحیم ہے تمام عمر اپنے علاقے کے مسلمانوں کی خدمت میں گزاردی۔ اصل دنیاوی زندگی تو یہی ہے کہ دوسروں کی خدمت میں گزاری جائے اور اس کا فائدہ ان صاحب کو جو کہ اہل علاقہ کی تربیت اور اصلاح میں صرف کی اس کا بدلہ انہوں نے ان کی وفات کے بعد دیا کہ ہر کوئی ان کی تعریفیں کرنے میں بخل سے کام نہ لیتا تھا اور پریشان تھے کہ دو ماہ بعد رمضان المبارک شروع ہونے والا ہے اب ہمیں کوئی دوسرا حافظ لانا پڑے گا مگر اللہ رب العزت نے ان لوگوںکی لاج رکھ لی اور اس فوت ہوجانے والے حافظ قرآن کی دلی مراد پوری کردی اور وہ بھی فوتگی کے بعد۔ اللہ مہربان نے قرآن عظیم الشان کا معجزہ کردیا۔
فوت ہونے والے مولوی صاحب کی دلی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا بھی حافظ قرآن بنے اور مسجد میں تراویح پڑھائے۔
اب جب بھی کوئی مولوی صاحب کے صاحبزادے سے افسوس کرنے کیلئے ملتا یہ ذکر ضرور کرتا کہ آپ نے اگر اپنے والد مرحوم کی بات مانی ہوتی تو آج نہ ہمیں اور نہ ہی تمہیں پچھتانا پڑتا اور تمہیں ہم مصلے پر دیکھتے اور تراویح بھی پڑھتے۔ مگر افسوس کہ آپ کے والد مرحوم کی یہ خواہش نہ پوری ہوسکی ہر ایک گاؤں کا فرد بشمول خواتین کے کہہ دیتیں مگر سوائے خاموشی اور سرجھکائے رکھنے کے سوا کچھ بھی تو نہیں کرسکتا تھا۔
ایک دن معلوم نہیں مولوی صاحب کے صاحبزادے کو کیا ہوا کہ اس نے اعلان کردیا کہ میں تراویح ضرور بضرور پڑھاؤنگا اور واقعی کہ موصوف نے ہی کردکھایا جو اس نے کہا تھا کہ اس نے ایک پارہ انتہائی خوش الحانی سے سنایا تو سارا گاؤں سوچ میں پڑگیا کہ کل کیا ہوگا؟ مگر ہرروز ایک پارہ روزانہ سنا کر اپنے حجرہ میں چلا جاتا رہا (نماز مکمل کرنے اور دعا کرنے کے بعد) اور اسی طرح اس صاحبزادہ نے تیس دنوں میں پورا قرآن عظیم الشان حفظ کرلیا یہ ہے قرآن عظیم الشان کا معجزہ اگر کوئی بھی شخص اگر یہ یا وہ کام کرنے کا مصمم ارادہ کرلے‘ اگر کوئی کتاب جو کہ اردو‘ فارسی‘ عربی یا انگریزی میں ہو تو اس کو یاد کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔ صرف پختہ ارادہ کرلینا ہی ضروری ہے۔ دیکھا آپ نے کہ ایک لڑکا جس نے صرف ناظرہ قرآن پڑھا ہوا تھا مگر لوگوں کے توجہ دلانے پر اور پورے یقین اور ارادے سے پورا قرآن تیس دنوں میں حفظ کرلیا۔
یہ ہے توجہ اورارادے اور اللہ مہربان کی عنایت کہ جو کچھ کرنا ہے وہ اللہ مہربان اور پختہ ارادہ سے ہی ناممکن ممکن ہوجاتا ہے۔
محنت میں عظمت ہے
جاڑے کا موسم تھا اورر سخت بارش ہورہی تھی۔ تمام آدمی اور جانور سردی کے مارے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ پرندے بھی پروں میں سر چھپائے اپنے اپنے گھونسلوں میں سمٹے سمٹائے بیٹھے تھے۔ کُہر اور دھند کی وجہ سے کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔
ایسی حالت میں ایک بھوکی ٹڈی چیونٹی کے پاس جا کر بولی: بہن چیونٹی سلام!چیونٹی نے جواب دیا ’’سلام بہن ٹڈی کہو! ایسی بارش میں کیسے آنا ہوا؟ٹڈی کا تمام جسم بھیگا ہوا تھا اور وہ سردی سے کانپ رہی تھی۔ ٹھنڈی سانس لے کر بولی کیا بتاؤں۔ بہن! دیکھتی ہو‘ دو دن سے کیسی سخت بارش ہورہی ہے۔ آج تمام دن پھرتے پھرتے تھک گئی مگر کھانے کو کچھ نہ ملا۔ بھوک کے مارے برا حال ہے۔ مجبور ہوکر تمہارے پاس آئی ہوں۔ تم نے کافی خوراک اکٹھی کررکھی ہے۔ اگر مہربانی کرکے تھوڑی سی مجھے بھی دے دو تو یہ جاڑے کے دن نکل جائیں گے۔ تمہارا احسان ہوگا۔چیونٹی نے منہ بنا کر جواب دیا: تمہارا خیال صحیح ہے میرے پاس کافی خوراک ہے۔ مگر یہ خوراک میں نے انہی دنوں کیلئے اکٹھی کی تھی اگر تمہیں دے دوں تو پھر میں سارے جاڑوں کیا کھاؤں گی؟ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم گرمی بھر کیا کرتی رہی جو اس وقت ایک دانہ بھی تمہارے پاس نہیں ہے؟؟؟ٹڈی نے شرما کر کہا بہن! اس وقت میں ہری بھری گاس میں بیٹھ کر موسم کا مزا لیا کرتی تھی۔
چیونٹی نے ہنس کر کہا: موسم کا مزا لیا کرتی تھی؟؟؟ بہت خوب!!! تو میرے خیال میں اب جاڑوں میں بھی موسم کا مزا لیتی رہو‘ اسی سے پیٹ بھر جائے گا۔پیارے بچوں !جو لوگ کام کے وقت کام نہیں کرتے ہیں اور وہ وقت کھیل کود میں ھزار دیتے ہیں وہ بعد میں اسی ٹڈی کی طرح پچھتاتے ہیں
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں